بے مثل و بے مثال بشرﷺ

الحمداللّٰہ رب العالمین والصلٰوۃوالسلام علٰی سیدنا محمدوعلٰی اٰلہٖ و صحبہٖ وسلم تسلیماً کثیراً الٰی یوم الدین۔امابعد،

انبیاء کرام علیہم السلام کی ایک خصوصیت بشریت ہے۔ انبیاءکرام و رسُلِ عظام جِن یافرشتہ نہیں ہوتے،بلکہ وہ جنسِ بشر سے ہوتے ہیں۔مگر عالم غیب ان پربے نقاب ہوتاہے۔ان کے بازوؤں میں قوتِ الٰہی جلوہ فرما ہوتی ہے۔کائنات کی قوتیں ان کے اشارے پر سرِِتسلیم خم کر دیتی ہیں۔وہ جمالِ الٰہی کا مظھر اور کمالِ الٰہی کا آئینہ ہوتے ہیں۔حیوانات ان کا حکم مانتے ہیں۔پتھر انھیں عقیدتوں کا خراج اور محبتوں کا سلام پیش کر تے ہیں۔اور ان تمام واضح حقیقتوں کے باوجود انبیاء کرام خدا کے اوتار یا بیٹے نہیں ہوتے۔
قل سبحٰن ربی ھل کنت الا بشرًا رسولاً۔
آپ فرمایئےمیرا رب پاک ہے میں کون ہوں مگر آدمی اللہ کا بھیجا ہوا۔
اھلِ سنّت کا اجماع ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نور اور بشر دونوں ہیں،
قد جاءکم من اللّٰہ نور و کتاب مبین۔
اس آیت کے تحت علامہ آلوسی،شیخ عبدالحق محدث دھلوی،علامہ صاوی اور امام فخرالدین رازی علیہم الرحمہ ،ان تمام حضرات نے “نور” سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مراد لیا ہے۔بہرحال اگر حضور کو نور مانیں تو بقول علامہ صاوی کہ
ھُوَ نُورُ الاَنوَار وَالنَّبِیُ المُختَار
وہ تمام نوروں کے نور اور نبی مختار ہیں۔
اور اس نور کی حقیقت اللہ ہی بہتر جانتا ہے اور اگر بشر کہیں تو وہ تمام بشری عیوب و نقائص سے پاک ہیں۔عام انسان صرف سامنے دیکھتے ہیں وہ پیچھے بھی بیک وقت دیکھ سکتے ہیں بشری آنکھیں تو چمکتے سورج کو بھی نہ دیکھ سکیں مگر نگاہِ مصطفیٰ، اللہ کا دیدار کرلے ،ہم صرف مادّی آواز ہی سن سکیں اور نبی علیہ السلام غیب کی آوازیں بھی سنیں۔
اِنّی اَرٰی مَالَا تَرَونَ وَ اَسمَعُ مَا لَا تَسمَعُونَ۔(ترمذی)
میں و ہ کچھ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھ سکتے اور وہ کچھ سنتا ہوں جو تم نہیں سن سکتے۔
عام انسان عالمِ غیب کی رسائی سے قاصر ،وہ غیب بتانے میں سخی،انسان کے پسینہ سے بد بو آئے مگر آپ کے پسینہ کا مقابلہ مشک و عنبر و کستوری بھی نہ کرسکے،ہمارا تھوک بیماریاں پیدا کرے،مگر نبی علیہ السلام کا لعابِ دہن مبارک دکھوں کا علاج اور بیماروں کو شفاء اور خشک کھاری کنوؤں کو سیراب و میٹھا کرے،ہم خوشبو لگائیں تو کچھ دیر معطر رہیں،مگر نبی علیہ السلام بغیر خوشبو لگائے جس راستے سے گزر جائیں وہ راستے خوشبوؤں سے مہکتے رہیں،عام انسانوں کا سایہ ہوتا ہے،مگر اس نور والے نبی کا سایہ نہیں،عام انسان کو کھانا نہ ملے تو نڈھال و نحیف ہوجائے،مگر سرکار علیہ السلام رات و دن بغیر افطار کے صوم ِ وصال کے روزے رکھیں،عام انسان سوجائے تو غفلت طاری ہوجائے اور وضو ختم ہوجائے ،مگر اللہ کے نبی جب سو جا ئیں تو وضوبرقرار ،اور دل بیدار رہے،عام انسان گناہوں میں آلودہ ہوتے ہیں،جبکہ انبیاء کرام معصوم عنِ٘ الخطاء ہوتے ہیں،عام انسانوں کی بیواؤں سے نکاح جائز،جبکہ انبیا ء کرام علیھم السلام کی ازواج سے مطلقًا حرام ہے،عام انسان موت کے آگے بے بس ہوتے ہیں،جبکہ انبیاء کرام علیھم السلام کو عام بشر کی طرح بے بسی کے عالم میں موت نہیں آتی۔
*لن یّقبضَ نَبِی حتٰی یرٰی مَقعدہٗ مِن الجنّۃِ ثُمّ یُخَیَّرُ*(بخاری شریف)
(کسی نبی کی وفات اس وقت تک نہیں ہوتی ،جب تک اسے جنت میں اسکا مقام نہ دکھا دیا جائے۔پھر اسے اختیار دیا جاتا ہے کہ جو چاہے اختیار کرے۔معلوم یہ ہوا کہ نبی علیہ السلام کی شان و عظمت اور مقا م و مرتبہ لباسِ بشریت میں بھی سب پر بلند و بالا ہے۔جس طرح اللہ اپنے شانِ خدائی میں یکتا ہے ۔اسی طرح اپنے رسولِ کریمﷺ کو بھی شانِ محبوبیت میں یکتائی عطا فرمائی۔اور بقول حضرت حسان بن ثابت ؓ
کَأنّکَ قَد خُلِقتَ کمَا تَشَاءُ
(گویا کہ جیسے آپ چاہتے تھے ویسے ہی پیدا کیے گئے۔)
اے نبی محترم یا شفیعِ اممﷺ آپ سا کوئی نہیں ،بے شک آپ بے مثل و بے مثال ہیں
اللھم صل علٰی محمد عبدک ورسولک و صل علٰی المؤمنین و المؤمنات والمسلمین والمسلمات۔